آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مل کر کھایا کرو‘ الگ الگ مت کھاؤ کیونکہ برکت جماعت کے ساتھ ہوتی ہے اور فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنت میں کھاتا ہے اور فرمایا کہ جب کھاؤ تو نمک سے شروع کرو اور اختتام بھی نمک سے کرو
احمد کو بہت سخت بھوک لگی ہوئی تھی‘ دسترخوان لگا تو فوراً آکر چٹائی پر بیٹھا اور روٹی کا نوالہ توڑ کر کھانا کھانے لگا‘ ساتھ ساتھ مسلسل بولے جارہا تھا کہ ایک تو نیچے بیٹھ کر کھانے نہیں ہوتا اور اوپر سے کدو ہی ملے تھے پکانے کیلئے۔
اس کے ابو نے دیکھا تو بولے کہ بیٹا پہلے تو آپ کو چاہیے تھا کہ ہاتھ دھوتے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا فقر کو دور کرتا ہے‘ تمام نبیوں کی سنت ہے‘ اس میں شیطان کی مخالفت ہے‘ خیروبرکت کا باعث ہے‘ کھانے کا وضو ہے اور پھر آکر مسنون طریقے سے بیٹھتے کہ یا تو دونوں قدموں کے بل بیٹھتے یا دایاں پاؤں اُٹھا کر بایاں بچھا کر بیٹھتے تو تکلیف بھی نہ ہوتی اور دسترخوان جب تک بچھا رہتا ہے ملائکہ دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں اور پھر بِسْمِ اللہ پڑھ کر کھانا کھانے سے اس میں شیطان شرکت نہیں کرسکتا اگر شروع میں بھول جائے تو بِسْمِ اللہ اَوَّلُہٗ اٰخِرَہٗ پڑھ لیتے ہیں اور رہی بات کدو کی تو کدو تو میرے پیارے آقا حضور نبی اکرم ﷺ کو بہت پسند تھا۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ یہ دماغ کو تیز کرتا ہے اور عقل کو زائد کرتا ہے۔ عائشہ بھی بڑے غور سے ابو کی باتیں سن رہی تھی‘ اس نے دسترخوان صاف کرنے کے بارے میں پوچھا تو ابو نے کہا کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو دسترخوان پر گرے ہوئے ٹکڑوں کو تلاش کرکے کھائے گا‘ اللہ اس کی مغفرت فرمادے گا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا تھا کہ دسترخوان آپ ﷺ کے سامنے سے اٹھالیا گیا ہو اوردسترخوان پر کھانے کا ٹکڑا باقی رہ گیا ہو۔
عائشہ اور احمد دونوں بولے ابو جان کھانے کے متعلق اور کیا سنتیں ہیں تو ابو جان نے بتایا کہ ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھانا چاہیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا ہوں‘ جوتے اتار کر کھانا چاہیے‘ بیٹھ کر کھانا چاہیے‘ ٹھنڈا کھانا کھانا چاہیے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کھانا ٹھنڈا ہونے دو‘ اس میں برکت زائد ہوتی ہے اور ایک بار آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں تیز گرم کھانا پیش کیا گیا‘ آپ ﷺ نے ہاتھ بڑھایا پھر کھینچ لیا اور فرمایا اللہ نے ہمیں آگ نہیں کھلائی اور کھانے کو سونگھنے سے منع فرمایا اور فرمایا کھانے کو مت سونگھا کرو کیونکہ درندے سونگھا کرتے ہیں اور آپ ﷺ نے برتن میں سانس لینے یا پھونک مارنے سے منع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نہ کھانے میں پھونک مارتے تھے اور نہ پانی میں اور نہ برتن میں سانس لیتے تھے اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کا کھانا ترک نہ کرو خواہ ایک مٹھی کھجور ہی سہی کہ رات کے کھانے کا چھوڑنا بڑھاپا لاتا ہے۔ اس کے علاوہ نبی کریم ﷺ کو ہانڈی اور پیالہ کا بچا ہوا کھانا مرغوب تھا اور آپ ﷺ نے فرمایا کھانے کے بعد خلال کرو (کلی کرو) یہ دانت اور ڈاڑھ کیلئے مفید ہے۔
آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ مل کر کھایا کرو‘ الگ الگ مت کھاؤ کیونکہ برکت جماعت کے ساتھ ہوتی ہے اور فرمایا کہ مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنت میں کھاتا ہے اور فرمایا کہ جب کھاؤ تو نمک سے شروع کرو اور اختتام بھی نمک سے کرو۔ نمک میں 70 بیماروں سے شفاء ہے۔ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ کے ساتھ ثرید کھایا جس میں چربی کی بڑی چکناہٹ تھی پھر اس کے بعد کھجور نوش فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ کھانے کے آخر میں میٹھا کھانا مسنون ہے بعض روایتوں میں نمک پر ختم کرنا معقول ہے ممکن ہے الگ الگ اوقات کے اعتبار سے ہو۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس پنیر لایا گیا اور کہہ دیا گیا کہ یہ مجوسی کا بنایا ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ بسم اللہ پڑھو اور کھاؤ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ غیرمسلم کے ہاتھ کی پکی ہوئی چیزیں کھاسکتے ہیں‘ اس میں کوئی حرج نہیں تاوقتیکہ ناپاکی‘ بے احتیاطی اور خلاف شرع کا علم یا مشاہدہ نہ ہو۔ (شمائل کبریٰ) ابوجان بتا کر اٹھنے لگے تو احمد اور عائشہ نے ابوجان کا شکریہ ادا کیا کہ اتنی مفید سنتیں بتائیں۔نوٹ: معتدل گرم کھانا خلاف سنت نہیں اس لیے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک دن گرم کھانا پیش کیا گیا آپ نے تناول فرمایا اور الحمدللہ کہتے ہوئے فرمایا کہ کئی دن ہوگئے پیٹ میں گرم کھانا نہیں گیا۔ (جو ممانعت ہے وہ تیز گرم کھانے میں ہے جو اوپر حدیث میں آیا ہے)
احسان کا بدلہ
جاڑے کا موسم تھا اور سخت بارش ہورہی تھی‘ ایک بھوکی سیہ سردی اور پانی سے بچنے کے لیے، کسی جگہ کی تلاش میں، ماری ماری پھررہی تھی۔ وہ ایک پُرانے درخت کی جڑ میں سُوراخ دیکھ کرٹھٹکی۔ اندر جھانک کر دیکھا تو ایک سانپ نظر آیا۔ سیہ نے گڑگڑا کر کہا ’’بھائی سانپ‘ مجھے بہت سخت سردی لگ رہی ہے اور میں بھوکی بھی ہوں۔ کیا آپ مجھے اپنے گھر میں جگہ دیں گے؟‘‘سانپ کو اُس کی حالت پر رحم آگیا۔ بولا آجاؤ۔ سیہ اندر چلی گئی اور آرام سے ایک طرف بیٹھ گئی۔ سانپ نے اسے کھانے کو بھی دیا۔ تھوڑی دیر بعد جب سیہ کے جسم میں گرمی آگئی تو وہ سانپ کے بل میں اِدھر اُدھر پھرنے لگی۔ سیہ کے جسم پر کانٹے ہوتے ہیں کانٹے سانپ کے بدن میں چبھے تو اسے بہت تکلیف ہوئی۔ وہ نرمی سے کہنے لگا ’’بہن! بارش تھم گئی ہے۔ اب تم یہاں سے چلی جاؤ۔ اس سوراخ میں ہم دونوں میں سے صرف ایک رہ سکتا ہے۔سیہ نے جواب دیا ’’مجھے یہ سوراخ بہت پسند ہے۔ میں یہیں رہوں گی تم چاہو تو شوق سے جاسکتے ہو۔‘‘سانپ نے کہا اگر مجھے یہ معلوم ہوتا تو تمہیں اندر آنے ہی نہ دیتا‘ سیہ نے جواب دیا یہ تمہاری غلطی ہے‘ تمہیں چاہیے تھا کہ مجھے بلانے سے پہلے میرے کانٹوں کو دیکھ لیتے۔سچ ہے‘ بنا سوچے سمجھے کام کرنے سے ہمیشہ تکلیف ہوتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں